سیاست اور قبر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
کبھی سیاسی مخالفین کو قبر میں اتارا جاتا ہے (معنوی طور پر یا اشاراتی طور پر) تو کبھی نظریات قبر کا رخ اختیار کرتے ہیں۔
اور تو اور اکثر اوبیشتر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران جنہیں بریانی کی دیگ میں دفن کیا جاتا ہے انہیں وقت گزرنے پر بھوک اور افلاس کی کچی ٹوٹی قبر اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔
سیاست میں ایک اور قبر بھی موجود ہے جسے ضمیر بیچ کر یا مار کر حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ قبر خاصی سود مند ثابت ہوتی ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ سیاست میں جذبات کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے مردہ دلوں کی اجتماعی قبریں ایسی ہی شاندار ہیں جیسے کہ تاج محل۔
ان سب قبروں میں ایک خاص الخاص قسم اس قبر کی ہے جس میں دادا یا نانا مرحوم (یا شہید) دفن ہوں۔ ایسی قبریں احرامِ مصر کی یاد دلاتی ہیں جن کی ہیبت اور مدفن خزانے صدیوں تک پرذوق افراد کی لیے کشش اور اگلی نسلوں کے لیے باعثِ روزگار ہوتے ہیں۔
ایسے سیاست دان جنہیں یہ قبریں نصیب ہوں وہ اپنے تیر و نشتر سے ملک کے دیگر اداروں، مثلاً قانون، دفاع اور خارجہ محاذ کو چھلنی کر کے رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور یہ قبریں ان کی زندگی کی ضامن ہوتی ہیں۔
ان تمام قبروں کا سیاست سے گہرا رشتہ ثابت ہوتا ہے اور اسی لیے سیاستدان قبروں کو زندہ قوم سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
لیکن حال ہی میں سیاسی دنیا نے قبروں سے متعلق ایک چونکا دینے والا واقعہ دیکھا۔
جس میں سزا یافتہ مجرمان کا ایک ٹولہ بابائے قوم کی قبر پر ووٹ کو عزت دلواتے ہوئے قبر اور قوم کو پامال کرتا ہوا دیکھا گیا۔
تاریخ میں بارہا بار سیاست میں بازی لے جانے کے خبط میں مبتلا سیاست دان قومی رہنماؤں کے ارشادات، روز مرہ زندگی کے واقعات اور کرداروں کو توڑ موڑ کر اپنی مرضی کے بیانیے پر ڈھالتے آئے ہیں۔ لیکن چشمِ حیرت دل گرفتہ ہے کہ سیاست اور قبر کا یہ رشتہ اب اس نہج پر آن پہنچا ہے کہ قبر کو سیاست کے گدھ سے خطرہ ہے۔
دیکھنا یہ ہے کے آنے والے وقت میں یہ گدھ خود سیاستدانوں کو نوچ ڈالے گا یا ہمارا قومی ضمیر ایک تازہ قبر تیار کر کے اس میں جا بسیرا کرے گا۔
Great
ReplyDeletehttps://pakistanliteraturee.blogspot.com/2020/12/blog-post.html