Skip to main content

زہر کا ٹیکہ


کرونا وائیرس کی موجودہ عالمی وبا پوری دنیا کے نظامِ صحت پر ایک سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے۔ لیکن وطنِ عزیز میں ڈاکٹروں اور صحت سے متعلق دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں کے تجربات شاید باقی دنیا سے زیادہ تلخ ہیں۔

موجودہ صورتحال میں مریضوں کا ڈاکٹروں پر عدم اعتماد اور ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کی طرف سے حکومتِ وقت کی پالیسیوں پر تحفظات کا ہونا وبا اور دیگر بیماریوں سے لڑنے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اس کشیدہ ماحول کو سمجھنے اور اس کا تدراک کرنے کے لیے ہمیں اپنے اردگرد جھانکنا ہو گا۔

ہر روز ہمیں اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ آج فلاں علاقے کے فلاں ہسپتال میں مریضوں کے لواحقین نے ڈاکٹروں کو زدوکوب کیا اور ہسپتال کے شیشے اور دروازے توڑ دیے۔ اسی ہفتے لاہور کے کسی ہسپتال میں  چھوٹی سی بات پر مریض نے، جو خود ایک کانسٹیبل تھا، ڈاکٹر کی ٹانگ پر گولی مار دی اور خون آلود کمرے کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی اشتعال اور غیرت دلاتی رہیں۔ اس کے اگلے دن گوجرانوالہ میں ایک مریضہ کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا اور شور مچ گیا کہ ڈاکٹر نے زہر کا ٹیکا لگا کر مریضہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس پر مرد رشتہ داروں نے لیڈی ڈاکٹر کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی اور ہسپتال کے عملہ نے ڈاکٹر کی جان بچائی۔ اس سے پہلے کئی دفعہ یہ خبریں دیکھنے میں آئیں کہ کرونا کے مریضوں کے لئے وینٹیلیٹر نہ ہونے کے باعث کئی ڈاکٹروں نے مار کھائی۔ اس طرح کے اتنے واقعات ہو چکے ہیں کہ اب ایسی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔




لیکن اگر ان خبروں سے ہٹ کر بھی ہسپتالوں کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ مریضوں اور ان کے لواحقین کے بہت سے مطالبات جائز ہیں۔
عموماً سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر سامانِ جراحی ناپید ہے۔ چونکہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد چند بڑے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے اس لیے سب مریضوں کے لیے بیڈ موجود نہیں ہیں۔ اگر داخلے کی اشد ضرورت ہو تو سٹریچر پر لٹا کر وارڈ کے کسی حصے میں لٹا دیا جائے گا۔ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی ضرورت پڑے تو کسی بڑے ہسپتال ریفر کیا جائے گا یا اگر ہسپتال میں سہولت موجود ہے تو ٹیسٹ فری کروانے کے لیے انتظامیہ کے دفتروں کے چکر لگانے پڑیں گے۔ چونکہ مریض دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں اس لیے تیمارداروں کے رہنے کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔ اگر علاج لمبا اور پیچیدہ ہے تو کئی مریضوں کو دوبارہ بلایا جائے گا تا کہ دیگر ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جا سکے جس سے مریض کا خرچہ زیادہ ہو گا اور یہ تاثر بھی جائے گا کہ انکا علاج وقت پر نہیں ہو رہا۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹر مریض کو طریقِ علاج کی وضاحت نہیں کر سکیں گے اس لیے مریض تذبذب کا شکار رہے گا اور ڈاکٹروں کی طرف اس کا اعتماد کم ہوتا جائے گا۔
اگر دیکھا جائے تو اس میں سے زیادہ تر مسائل کا تعلق انتظامی امور سے ہے نہ کہ ڈاکٹروں کے طریقۂ علاج یا قابلیت سے۔ لیکن پھر بھی فوری اشتعال کا شکار ڈاکٹر، وہ بھی عموماً سب سے چھوٹے رینک کا ڈاکٹر ہو گا کیونکہ وہ ایک آسان ٹارگٹ ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈاکٹر مریضوں سے نالاں اور مریض ڈاکٹروں سے ناراض نظر آتے ہیں۔






اب ہم ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کی شکایات پر نظر ڈالتے ہیں ۔
ماضی کی حکومتوں کے دور میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ایک روز یہ خبر آئی کے ڈاکٹروں پر تشدد کیا گیا اور آدھی رات کے وقت لیڈی ڈاکٹرز کو ہوسٹلوں سے نکال کر پولیس نے کمروں کی تلاشیاں لی۔ یہ کاروائی اس الزام کے تحت عمل میں آئی کہ چند ڈاکٹر حضرات حکومتِ وقت کے مخالفین کی حمایت کرتے تھے اور حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کے خلاف سرگرمِ عمل تھے۔ یہاں سے نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم (وائی ڈی اے) کا احتجاج شروع ہوا۔ بڑھتے بڑھتے یہ تنظیم ان تمام ڈاکٹرز کی آواز بن گئی جو بلا معاوضہ یا کم تنخواہ پر زیادہ کام کرنے پر مجبور تھے، جن کے سینئیر ڈاکٹر انکی تربیت کی آڑ میں تذلیل روا رکھتے تھے، یا دن رات محنت کے باوجود ترقی رکی ہوئی تھی۔

ڈاکٹروں کے بہت سے مطالبات جائز تھے لیکن شُنوائی بہت کم ہوئی۔ ایک کے بعد دوسری حکومتیں آتی رہیں لیکن سروس سٹرکچر، ہسپتالوں میں مکمل سہولیات کی فراہمی، سیکیورٹی، تنخواہوں میں اضافہ، رہائش اور ایسے ہی بہت سے معاملات میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی۔








کرونا وائیرس کی وبا کے آتے ہی یہ شکایات پہلے سے زیادہ بڑھ گئیں کیونکہ حفاظتی لباس کی عدم فراہمی کی وجہ سے روز بروز ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس اس بیماری کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے ڈاکٹرز نے اپنی ذمہ داری سے کئی گنا زیادہ محنت کی۔ لیکن بیماری کی صورت میں ڈاکٹروں کو اپنے ہی ہسپتالوں میں جگہ نہ ملی۔ بہت سے ڈاکٹرز اپنے گھر والوں کو بیمار کرنے کا سبب بنے اور وقت آنے پر اپنے بوڑھے والدین کے علاج کے لیے کوئی جگہ میسر نہ آئی۔
اس کے علاوہ حکومتی اعلانات کے باوجود کرونا کا فنڈ ڈاکٹروں کی بجائے ہسپتال کے دیگر انتظامی عملے کے حصے میں آیا۔ یہ تمام حقائق ڈاکٹر کمیونٹی میں مایوسی اور بےبسی پھیلانے کا سبب بنے۔ اور جیسا کہ ایسے حالات میں ہوتا ہے تمام غم و غصہ موجودہ حکومت پر نکلنے لگا۔ ایک طرح سے گزرے دن لوٹ آئے ہیں اور پچھلی حکومتوں کی ناکارگی کا راگ الاپنے والے اب موجودہ حکومت سے بھی ناراض ہو گئے ہیں۔




میرا سوال تمام ڈاکٹر حظرات سے یہ ہے کہ کیا ہمارے تمام مسائل کا حل حکومتی تبدیلیوں پر مبنی ہے؟
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ عوام اور مسیحاؤں کے بیچ یہ نفرت کی دیوار دراصل منفی میڈیا رپورٹنگ، چند برسرِاقتدار عناصر کے ذاتی مفادات، پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان کی اجارہ داریوں اور دیگر شعبوں کی چند کالی بھیڑوں کی مرہونِ منت ہے جنہیں ڈاکٹر برادری نے بے جا پروکول دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اس کی بجائے اگر ہم یہ سوچیں کہ اس مضبوط ہوتی ہوئی دیوار کو توڑنے کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے بڑھ کر مسیحائی کرنی ہو گی تو یہ دیوار اپنے آپ ڈھے جائے گی۔
اس آگ میں عوام اور ڈاکٹر دونوں ہی جل رہے ہیں۔ اور فائدہ صرف ان شرپسند عناصر کا ہے جو اس آگ سے اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں۔ یقین کیجیے کہ کوئی بھی نئی پرانی حکومت اب آپ کے لئے وعدوں کے سوا کچھ نہ کرے گی۔ کیونکہ اگر معاشرہ صحت مند ہو گا تو وہ سیاستدانوں اور مسندِ اقتدار پر براجمان دیگر اداروں سے تعلق رکھتے کرپٹ عناصر کا احتساب شروع کر دے گا۔ اور یہ عمل وہ کسی صورت ہونے نہ دیں گے۔




ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر اور پیرامیڈکس اس وطن کی خاطر ڈیوٹی اور فرض سے آگے بڑھ کر مسیحائی کریں۔ اور باقی تمام معاملات اللہ تعالٰی کی ذات پر چھوڑ دیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسا کرنا بالکل بھی آسان نہیں۔ اور اگر کوئی اس رستے پر نہ چلنا چاہے تو اس سے کوئی گلہ بھی نہیں۔ لیکن یقین کیجیے کہ فی الوقت اس کے علاوہ کوئی حل بھی نہیں۔
ہم کیا ہیں اور کیسے ہیں اسکا مظاہرہ اپنے اخلاق سے کریں۔ پھر دیکھیے گا کہ جب عوام اور ڈاکٹرز مل کر صحت کی سہولتوں کا مطالبہ کریں گے تو کوئی حکومتی مجبوری آڑے نہیں آئے گی۔

Comments

Popular posts from this blog

Collapsing Global Political trends - Are we in need of a new political system?

  "It was the best of times, it was the worst of times, it was the age of wisdom, it was the age of foolishness, it was the epoch of belief, it was the epoch of incredulity, it was the season of light, it was the season of darkness, it was the spring of hope, it was the winter of despair" Charles Dickens; A Tale of two cities Capitol Hill under siege There is no better description of the current global socio-political scenario than these infamous words of Dickens.  After a year of pandemic and political incapacity to unanimously contain an emergency situation at the global center stage, the world is witnessing a dichotomy that has never been so evident before. In contrast to the Cold War era, when the world was divided into two distinct blocks with individuals from each of the block fighting and dying for their own political ideology, the current division is present deeper within the masses in respective countries. US elections 2020 revealed that this division is rampant with

Waves of sorrow and the fertile hearts!

The recent Monsoon season and the heavy rainfall we received poured some questions in the minds of many a people across Pakistan. In this post I would like to address three of such questions, according to my personal opinion, and would also like to know what you think about these questions. The questions are: ·          Why did a natural disaster as devastating as the recent floods hit us? ·          What can we at an individual and national level do for the relief of millions of people who are desperately looking towards us for help? And ·          In what way is the flood going to affect us, as a nation, in the long-term? Considering from different angles many different perspectives can be observed. Some believe that the ‘timely’ construction of large dams in the country could have helped storing water in the reservoirs, hence reducing the chances of floods. Others are of the opinion that as regular cleaning of the river channels in the Northern region of the country was not observ

The Unconscious Self

“What color do you like?” “I prefer red.” “But why do u like it? There must be some reason.” “The only reason is that… THERE’S JUST NO REASON” There comes many such moments in our life when ‘There’s just no reason’ behind some of our actions or thoughts. Yet we feel determined to carry them out. This is the point when our unconscious steps in our conscious world and leaves indelible marks on it. Unconscious has a considerable effect on one’s way of life but the nature of the exact relation it has with the conscious self is mysterious. Also the fact that despite having seemingly conflicting nature one’s conscious and subconscious usually go together in an efficient way deepens this mystery further, thus making it more appealing for researches and study. Life is a complete system and the process of living needs every component of that system to work in harmony. That is why we should not consider that the unconscious and the conscious do not supplement each other.