"It was the best of times, it was the worst of times, it was the age of wisdom, it was the age of foolishness, it was the epoch of belief, it was the epoch of incredulity, it was the season of light, it was the season of darkness, it was the spring of hope, it was the winter of despair" Charles Dickens; A Tale of two cities Capitol Hill under siege There is no better description of the current global socio-political scenario than these infamous words of Dickens. After a year of pandemic and political incapacity to unanimously contain an emergency situation at the global center stage, the world is witnessing a dichotomy that has never been so evident before. In contrast to the Cold War era, when the world was divided into two distinct blocks with individuals from each of the block fighting and dying for their own political ideology, the current division is present deeper within the masses in respective countries. US elections 2020 revealed that this division is rampant with
سیاست اور قبر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کبھی سیاسی مخالفین کو قبر میں اتارا جاتا ہے (معنوی طور پر یا اشاراتی طور پر) تو کبھی نظریات قبر کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اور تو اور اکثر اوبیشتر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران جنہیں بریانی کی دیگ میں دفن کیا جاتا ہے انہیں وقت گزرنے پر بھوک اور افلاس کی کچی ٹوٹی قبر اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ سیاست میں ایک اور قبر بھی موجود ہے جسے ضمیر بیچ کر یا مار کر حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ قبر خاصی سود مند ثابت ہوتی ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ سیاست میں جذبات کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے مردہ دلوں کی اجتماعی قبریں ایسی ہی شاندار ہیں جیسے کہ تاج محل۔ ان سب قبروں میں ایک خاص الخاص قسم اس قبر کی ہے جس میں دادا یا نانا مرحوم (یا شہید) دفن ہوں۔ ایسی قبریں احرامِ مصر کی یاد دلاتی ہیں جن کی ہیبت اور مدفن خزانے صدیوں تک پرذوق افراد کی لیے کشش اور اگلی نسلوں کے لیے باعثِ روزگار ہوتے ہیں۔ ایسے سیاست دان جنہیں یہ قبریں نصیب ہوں وہ اپنے تیر و نشتر سے ملک کے دیگر اداروں، مثلاً قانون، دفاع اور خارجہ محاذ کو چھلنی کر کے رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور یہ قبریں ان کی